Asas (Roots) | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

ASAS (ROOTS) اساس

ASAS (ROOTS)

PKR:   1,600/-

موجودہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تاریخ کے کئی تاریک گوشے ہیں جن میں سے ایک تاریک گوشہ اس کی افریقی ۔ امریکن آبادی سے بھی تعلق رکھتا ہے ۔ سفید فام یورپی آباد کاروں نے امریکہ کے اصل باشندوں کو جس طرح نسلی طور پر برباد کیا اور انہیں آج ' reservation ' تک محدود کر کے رکھ دیا ہے وہ کہانی الگ ہے ۔ یہاں صرف یہ کہنا کافی ہو گا کہ سفید فام یورپیوں کے لئے امریکہ تو ’ لیئف ارکسِن (Leif Ericson) نے گیارہویں صدی میں ڈوھنڈ نکالا تھا لیکن اس طرف اصل دھیان تو اس وقت پڑا تھا جب’ جینویز‘ (Genoese)کرسٹوفر کولمبس نے پندرہویں صدی کے آواخر میں اسے’ نئی دنیا ‘ کہہ کر ہسپانوی سفید فاموں کو یہاں آباد کاری کی راہ دکھائی ۔ ہسپانویوں کی دیکھا دیکھی دیگر ، خاص طور پر برطانوی سفید فاموں نے اس نئی دنیا میں گھُسنا شروع کیا ۔ کولمبس کے وائسرے اور گورنر بنتے ہی مقامی آبادی کا جو قتلام اور بیغ کنی شروع ہوئی تھی وہ بعد میں صدیوں تک جاری رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ان اصل امریکیوں کا تناسب اس ملک کی آبادی میں تیسرے نمبر پر ہے۔
آج کی افریقی ۔ امریکن آبادی جو سفید فاموں کے بعد اس ملک کا دوسرا بڑا آبادی کا گروہ یا گروپ ہے اوراس وقت اس ملک کے سربراہ کے علاوہ دیگر کئی میدانوں میں ’افریقی ۔ امریکن ‘ اہم ہیں لیکن ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی یہ آبادی اپنے پیچھے پانچ سو سال کی درد ناک اور دکھ والم بھری تاریخ ساتھ لئے بیٹھی ہے ۔ افریقی ۔ امریکنوں کے اجداد کو ہسپانوی اور انگریز سفید فام آباد کاروں نے افریقہ سے سولہویں صدی میں بزور طاقت اٹھانا شروع کیا تھا اورانہیں غلام بنا کر امریکہ لا کے بیگار پر لگانا شروع کیا تھا اور یہ سلسلہ بعد میں بھی منظم طور پرانیسویں صدی تک جاری رہا ۔ اس تاریخ کا آخری باب اپنے حقوق کے لئے ان کی طویل جدوجہد سے رقم ہے اور کئی حوالوں سے یہ ابھی تک جاری و ساری ہے ۔
آبادی کے گروہ یا گروپ خواہ کتنے ہی چھوٹے کیوں نہ ہوں ، ملک کتنا بھی اجنبی کیوں نہ ہو وہ اپنا کلچر ، ثقافت اور تمدن برقرار رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔ ایسا ہی افریقی ۔ امریکن آبادی نے بھی کیا اور امریکہ میں جہاں جہاں بھی وہ سفید فاموں کی غلامی میں آباد رہے انہوں نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ۔ نئی دھرتی سے بھی چیزیں مستعار لیں ، انہیں اپنایا بھی اور اپنی جینیاتی خصوصیات کی بنا پر انفرادیت بھی برقرار رکھتے ہوئے نسل در نسل آگے آتے رہے اور سفید فاموں کے کلچر کو بھی متاثر کرتے رہے ۔
’افریقی ۔ امریکن ادب‘ بھی اسی طرح پروان چڑھا ۔ اس ادب کی تاریخ کو اگر کنگالا جائے تو سب سے پہلے جس افریقی ۔ امریکن ادیب کا نام سامنے آتا ہے وہ کوئی مرد نہیں بلکہ ’لوسی ٹیری ‘ (پیدائش لگ بھگ 1730 ، وفات : 11جولائی 1821ئ) نامی ایک ایسی ساہ فام عورت ہے جو بچپن میں ہی افریقہ سے اغوا کرکے امریکہ لائی گئی تھی اور ’ڈئیر فلیڈ ‘ کے ابنیزر ویلز (Ebenezer Wells) کی غلامی میں پروان چڑھی تھی ۔ بعد میں ابیجہ پرنس(Abijah Prince) نامی ایک آزاد سیاہ فام نے اس کی آزادی خریدی اور اس سے 1756 ء میں شادی کر لی ۔ لوسی ٹیری نے ’ بارز فائٹ ‘ (Bars Fight) بیلے لکھا تھا ۔ یہ ان مقامی امریکنوں کا نوحہ تھا جنہوں نے اگست 1746 ء میں ’ دی بارز‘ نامی چراہگاہ میں رہنے والے دو سفید فام خاندانوں کو اپنے حملے کا نشانہ بنا کر بغاوت کی تھی ۔ یہ بیلے گو افریقی سیاہ فاموں کی جدوجہد سے نہیں جُڑا ہوا لیکن لگتا ہے کہ یہ ان کے لئے صدی بھر source of inspiration رہا اور سینہ در سینہ آگے منتقل ہوتا رہا اور پہلی بار 1855ء میں شائع ہوا ۔
’ بارز فائٹ ‘ کے بعد سے ’ انکل ٹام’ز کیبن ‘ (Uncle Tom's Cabin) تک کے سفر میں بہت سے افریقی۔امریکن نام آتے ہیں ۔ ان میں’ فلیس ویٹلی‘ ، ’ ہانا کرافٹس ‘ ، ’جیوپیٹر ہیمون‘ ، ’ ولیم ویلز براﺅن‘ ، ’ وکٹر سیجور ‘ اور ’ہیریٹ ،ای ، ولسن ‘ اہم ہیں ۔ یہاں ایک بات حیران کرتی ہے کہ ان میں ’براﺅن‘ اور ’ سیجور ‘ کے علاوہ باقی سب خواتین ادیب ہیں ۔
’ہیریٹ ،ای ، ولسن ‘ کا ناول ’ہمارا سیاہ فام ‘ (Our Nig) جو 1859ء میں شائع ہوا تھا افریقی ۔ امریکن ادب کاپہلا ناول مانا جاتا رہا ہے لیکن حال ہی میں ’ ہانا کرافٹس ‘ کا لکھا ’ بانڈوومن کا بیانیہ ‘ ( The Bondwoman's Narrative) جو 1982ء میں منظر عام پر آیا تھا اور 2002 میں شائع ہوا تھا ، کے بارے میں اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ یہ شاید’ ہانا‘ کے ناول سے پہلے لکھا گیا تھا ۔
’ انکل ٹام’ز کیبن ‘ بہرحال 1850 ءکی دہائی کا سب سے اہم ناول گردانا جاتا ہے بلکہ اس کی ادبی حیثیت تاحال مسلم ہے ۔اسے سفید فام ہیریٹ بیچر سٹوو (14جون 1811ء ۔ 1جولائی 1896ء) نے لکھا تھا اور یہ 1852ء میں شائع ہوا تھا ۔ یہ ناول افریقی امریکنوں کی غلامی میں گزاری زندگی کا ایک بہترین عکاس ناول مانا جاتا ہے ۔’ سٹوو ‘ سیاہ فاموں کی بطور غلام تجارت اور ان کے ساتھ رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کی شدید مخالف تھی ۔ اُس کے اِس ناول نے جہاں ایبولیشنسٹ (Abolitionist) حلقوں میں ہلچل مچائی وہاں یہ سیاہ فاموں کی بطور غلام تجارت کے حامی سفید فاموں میں اس کے خلاف شدید کشیدگی کا بھی باعث بنا ۔ بہرحال یہ ناول پہلے سال ہی ا مریکہ میں تین لاکھ اور برطانیہ میں دس لاکھ کی تعداد میں پڑھا گیا۔ یہ اب تک لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے اور دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں ۔ یہ ناول اتنی بار فلمایا جا چکا ہے کہ اگر اس بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ اب تک سب سے زیادہ فلمایا جانے والا ناول ہے تو بے جا نہ ہو گا ۔
افریقی ۔ امریکن ادب اپنا سفر طے کرتے کرتے صدی پار کرتا 1970 کی دہائی میں داخل ہو گیا ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ایلکس ہیلی (Alex Haley) اپنا ناول ’ روٹس‘ ( Roots: The Saga of an American Family) مکمل کر رہا تھا ۔ اس کا یہ ناول 1976ء میں شائع ہوا۔ یہ بھی اتنا بِکا کہ جلد ہی بیسٹ سیلر بن گیا ۔ ساتھ ہی اے بی سی ٹیلیویژن نیٹ ورک نے اس کے اولین ابواب کو ٹیلی مِنی سیریل میں ڈھال کر جنوری 1977ء میں اسے ناضرین کے لئے بھی پیش کر دیا ۔ یہ سیریل بھی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی سیریلز میں شمار ہوئی ۔ اسی برس یہ ناول ’ Plagiarism‘ کی وجہ سے متنازع بھی ہو گیا ۔ سفید فام ادیب’ ہیرلڈ کور لینڈر‘ اور سیاہ فام ادیبہ ’مارگریٹ واکر‘ نے ایلکس ہیلی پر یہ دعویٰ کر دیا کہ اس نے اپنے ناول میں ان کے ناولوں ’ افریقن‘ اور ’ جوبلی‘ کے حصے استعمال کئے ہیں ۔ ’واکر‘ کا الزام تو ثابت نہ ہو سکا البتہ ایلکس ہیلی کو ’کورلینڈر‘ کے کیس میں 650,000 ڈالرزکے لگ بھگ رقم ادا کرنا پڑی اور عدالت میں یہ کہنا پڑا کہ اس کے ناول کے وہ پیرے جو کورلینڈر کے ناول ’دی افریقن ‘ سے میل کھاتے ہیں وہ محض اتفاقیہ اور غیر ارادی امر ہے ۔
ایلکس ہیلی نے اپنے اس ناول میں اپنی اس جد ’کنتا کِنتے ‘کو اس وقت سے تلاش کیا ہے جب وہ گیمبیا کے ایک چھوٹے سے گاﺅں میں ماندنکا (Mandinka) لوگوں کے ایک مسلمان خاندان کا ایک بچہ تھا اور ابھی سن بلوغت کو بھی نہیں پہنچا تھا کہ غلاموں کی تجارت کرنے والوں کے ہتھے چڑھا اور امریکہ پہنچا دیا گیا ۔ تب سے اس کی نسلوں کا سفر خود ایلکس ہیلی تک آن پہنچتا ہے ۔ اس دوران سیاہ فام غلاموں کے ساتھ جو بیتتا ہے وہ اس ناول کے بیانیے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا ہے ۔
ایلکس ہیلی کو 1977ء کا سپیشل ' پُلزر ' انعام دیا گیا۔ 1979ء میں ’روٹس‘ کے بقیہ ابواب کو چودہ گھنٹے کی سیریز کی شکل میں ’روٹس: اگلی نسلیں ‘ کے نام سے پیش کیا گیا ۔ 1988ء میں اے بی سی ٹیلی ویژن نے دو گھنٹے کی فلم ’ روٹس: دی گفٹ‘ ٹیلی کاسٹ کی ۔ ’روٹس‘ کا اثر اتنا وسیع ہے کہ یہ اکیسویں صدی میں بھی جاری رہا ۔ 2007ء میں بی بی سی ، امریکہ نے ’روٹس‘ کو ’آوری فرینکلن بروکس‘ (Avery Franklin Brooks)کی آواز میں ریکارڈ کرکے بطور آڈیو بک ریلیز کیا ۔ اس کے ناول ’روٹس‘ نے افریقی ۔ امریکن ادب کے علاوہ عالمی ادب پر جو اثرات مرتب کئے سو کئے ، اس نے علم جینیات (Genealogy) اور ’اجدادی تحقیق ‘پر انتہائی گہرا اثر ڈالا ۔
2006ء میں مشہور تاریخ دان، فلم میکر اورہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ہنری لوئیس گیٹ ( Henry Louis Gates) نے پی بی ایس ٹی وی کے لئے ’افریقن۔ امریکی حیات‘ (African American Lives) نامی مِنی سیریل کی میزبانی کرتے ہوئے جینیاتی کلیئے برتنے کے علاوہ ڈی این اے (DNA) کا سہارا لیتے ہوئے اہم افریقی ۔ امریکنوں کی خاندانی تاریخ کھوجنے کی کوشش کی تھی ۔ اس سیریز کا دوسرا حصہ 2008ء میں پیش ہوا تھا ۔
2013ء میں اُدھر ٹی وی کے مشہور چینل ’ ہسٹری‘ نے اعلان کیا کہ وہ ’ روٹس‘ کو پھر سے فلما کر ناظرین کے لئے پیش کریں گے ۔ اِدھر پاکستان میں قانون دان اور ادیب و مترجم عمران الحق چوہان اس کو اردو زبان میں ڈھال رہے تھے ۔ وہ اس سے قبل میلکم ایکس کی آپ بیتی ’ گُہرہونے تک‘ ترجمہ کر چکے ہیں اور ان کا ایک سفر نامہ ’ بستی بستی، پربت پربت‘ کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے ۔
ترجمہ کرنا ایک مشکل اور کٹھن کام ہے ۔ اس کے لئے ہردو زبانوں کا ادراک اور فہم ہونی لازم ہوتی ہے ۔ایک جس سے ترجمہ کیا جانا مقصود ہو اور دوسرے جس میں اسے ڈھالنا درکار ہو ۔ یہ بھی درکار ہوتا ہے کہ مترجم کو دونوں زبانوں کے مختلف لہجے ، ڈِکشن اور روانی کا علم ہو ۔ عمران الحق چوہان کو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر کمال عبور حاصل ہے اور انہوں نے ’روٹس‘ کی امریکی انگلش ، افریقانو اور دیگر ملے جلے امتزاج کو بخوبی جانا ہے اور پھر اسے اردو میں ڈھالا ہے ۔ ترجمے کی سلاست ، روانی اور برجستگی ایسا ظاہر کرتی ہے جیسے ایلکس ہیلی نے اسے خود اردو زبان میں تحریر کیا ہو ۔ کتاب کا دیباچہ محمد طاہر نے لکھا ہے ، جن کا خیال ہے کہ یہ ترجمہ قارئین کے لئے دلچسپ ، متاثرکن اور خردا افروزثابت ہو گا ۔

RELATED BOOKS