India Ka Aik Safar | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

INDIA KA AIK SAFAR انڈیا کا ایک سفر

INDIA KA AIK SAFAR

PKR:   800/-

1920 کےہندوستان میں برطانوی حکومت اور ہندوستانی جد و جہد آزادی کے پس منظر میں لکھا گیا A Passage to India ای ایم فاسٹر کا مشہور زمانہ ناول ہے۔ ماڈرن لائبرری نے اسے انگریزی ادب کے 100عظیم شہ پاروں میں شامل کیا اور 1924 میں ادب کے لیے جیمس ٹیٹ بلیک میموریل انعام سے نوازا گیا۔ٹائم میگزین نے بھی اس ناول کو “ Time 100 Best English -Language Novels from 1923 to 2005” میں شامل کیا۔
ناول کی کہانی چار کرداروں کے گرد گھومتی ہے : ڈاکٹر عزیز ، ان کا برطانوی دوست سائرِل فیلڈنگ( Cyril Fielding) ، مسز مور( Mrs.Moor) اور ایڈیلا کویسٹیڈ (Adela Quested) ۔ مارابارغاروں ( بہار کے بارابار غاروں کی وضع پر بناے گیے مصنوی غار) کی سیر کے دوران ایڈیلا الزام لگاتی ھیکہ ڈاکٹر عزیز نے اس پر حملہ کیا ۔ عزیز کے مقدمہ کی کارروئی اور اس کے نتائیج نے مقامی ہندوستانیوں اور برطانوی نوآبادکار حکمرانوں کے درمیان نسلی تناؤ اور تعصب کو پوری طرح سے ظاہر کردیا۔A Passage to India میں فاسٹر نے براہ راست حاصل کی گئی معلومات کا استعمال کیا ہے۔
فاسٹر نے ہندوستان میں اپنی پہلی آمد کے فوری بعد 1913 میں ‘A Passage to India’ لکھنا شروع کر دیا تھا۔لیکن اس پر نظر ثانی یا ترمیم یا تصحیح اس وقت تک نہیں ہو سکی جب تک فاسٹر 1921 میں دوبارہ ہندوستان آے ، جب وہ مہاراجہ دیواس اسٹیٹ سینیر کے یہاں سکریٹری کی پوسٹ پر کام کررہے تھے۔آخر 1924 میں ناول چھپ کر سامنے آیا ۔ A Passage to India ،نسلی غلط فہمیوں اور ثقافتی منا فقت کا تجزیہ کرتا ہے جو ہندوستان پر برطانوی اقتدار کے اختتام کے قریب ، ہندوستانیوں اور انگریزوں کے درمیان پیچیدہ تعلقات کی وجوہات بنی تھیں۔
ایک بے باک ناول جو ان لوگوں کے لیے بہترین انتخاب ہو گا جو ہندوستانی تاریخ اور ثقافت میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
اس شام ڈاکٹر عزیز کو دو مرتبہ دھتکارا گیا۔جب وہ اپنے گھر شام کا کھانا کھا رہے تھے ، انھیں سِول سرجن کے گھر آنے کا بلاوہ آگیا۔لیکن جب وہ سول سرجن کے گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ سول سرجن کلب جاچکا تھا،ان کے لیے بغیر کوئی پیغام چھوڑے۔ مزیدبرآں ، گھر میں سے دو انگریز خواتین باہر نکل کر ان کے کرایہ پر لاے ہوے تانگہ میں بیٹھ کر چلدیں اور ان کا شکریہ ادا کرنا بھی گوارہ نہ کیا۔
ڈاکٹر عزیز شہر چندرپور کی طرف پیدل چلنے لگے۔جب وہ تھک گیے تو مسجد میں کچھ دیر سستانے کے لیے ٹھہیر گیے۔ انھیں یہ دیکھ کر غصہ آنے لگا کہ ایک انگریز خاتون ستون کے پیچھے سے نکل کر جوتوں سمیت مسجد کے اندر داٰخل ہوگئی۔ جبکہ مسز مور (Mrs Moor) ننگے پیر مسجد میں داخل ہوئیں۔ لہٰذہ اسے ایک مہذب اور دوستانہ شخصیت جان کر ، ڈاکٹر عزیز اس کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہو گیے۔
مسز مور حال ہی میں انگلینڈ سے اپنے بیٹے رونی ہیسلوپ(Ronny Heaslop) ، سٹی مجسٹریٹ سے ملنے کے لیے آئی تھی ۔ڈاکٹر عزیز نے پایا کہ ان کی سوچ مسز مور سے کافی ملتی تھی جب انھوں نے محسوس کیا کہ اسے سول سرجن کی بیوی کی کوئی پرواہ نہیں۔مسز مور کے اس انکشاف سے ڈاکٹر کی ہمت بڑھی کہ وہ اس کی سواری کے غصب کیے جانے کے بارے میں بتادے۔پھر ڈاکٹر اسی کے ساتھ کلب واپس چلا گیا۔ لیکن ہندوستانی ہونے کی وجہ سے اسے اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا۔
کلب میں ایڈیلا ، رونی ہیسلوپ کی منگیتر ، نے اعلان کیا کہ وہ حقیقی ہندوستان کو دیکھنا چاہتی تھی، وہ ہندوستان نہیں جو برطانوی نوآبادیوں کے ماحول میں باوقار بنا دیا گیا ۔ خواتین کو خوش کرنے کے انداز میں ، وہاں موجود ایک مہمان نے خبطیانہ انداز میں اعلان کیا کہ وہ ایک بریج پارٹی (bridge party) کا انتظام کرنے والا تھا جہاں مقامی مہمانوں کو بھی مدعو کیا جائیگا۔
بریج پارٹی تو ایک تکلیف دہ معاملہ تھا۔ ہندوستانی سبزہ زار کے ایک کونے میں کھڑے تھے۔ اور اگرچہ کہ واضح طور پر بے اعتناء برطانوی خواتین مقامی مہمانوں کی طرف چلی گئیں اور وہاں ایک طرح کی ناپسندیدگی کی فضا چھا گئی۔
البتہ اس پارٹی کا ایک امیدافزا نتیجہ سامنے آیا۔گورنمنٹ کالج کے پرنسپل ، مسٹر فیلڈنگ (Mr Fielding) ، ایک ایسا شخص جس کے دل میں ہندوستانیوں کے لیے نہ کوئی بغض تھا اور نہ ہی کوئی تکبر، نے مسز مور اور ایڈیلا کو اپنے گھر چاۓ پر مدعو کیا۔ایڈیلا کی خواہش پر مسٹر فیلڈنگ نے پروفیسر گوڑبولے ،جو ان کے اسکول میں ٹیچر تھے، اور ڈاکٹر عزیز کو بھی مدعو کر لیا۔
چاۓ کے دوران ڈاکٹر عزیز نے اپنی فصاحت ، لطافت اور بہترین اخلاق سے مسٹر فیلڈنگ اور مہمانوں کو مسحور کردیا۔ لیکن پارٹی ایک نامناسب بات پر منتشر ہو گئی ، جب گھمنڈی اور مشکوک رونی ہیسلوپ نے ایڈیلا ، اس کی منگیتر ، کو ڈاکٹر عزیز اور پروفیسر گوڑبولے کے ساتھ اکیلے چھوڑ دینے پر مسٹر فیلڈنگ کی کافی سرزنش کی۔
ایڈیلا، ہیسلوپ کے اس سنگدلانہ برتاؤ پر اتنی مشتعل ہو گئی کہ اس نے ہیسلوپ سے کہہ دیا کہ وہ اب اس سے شادی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ لیکن شام کے ختم ہوتے ہوتے اس نے اپنی سوچ بدل دی۔جب وہ ہندوستان کے دیہی علاقہ سے گذر رہے تھے ، اچانک اندھیرے سے کوئی پراسرار پیکر ، شائد کوئی جانور ، نمودار ہوا اور کار کو تقریباً الٹ ہی دیا۔ تنہائی اور ایک انجانے احساس نے دونوں کو قریب کردیا اور ایڈیلا نے رونی سے کہا کہ اس کے کیے گیے انکار کو وہ نظرانداز کر دے۔
چندرپور شہر کی ایک غیرمعمولی خصوصیت اس کے مظاہر قدرت ، شہر سے کئی میل دور واقع مارابار غار تھے ۔ مسز مور اور اڈیلا نے ڈاکٹر عزیز کی غاروں کی طرف لیجانے کی پیش کش کو قبول کر لیا ؛ لیکن یہ سیر سب کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ ایک غار میں داخل ہوتے ہوے مسز مور کو سمجھ میں آگیا کہ ان غاروں کے بارے میں جو کچھ بھی کہا گیا ہو ، لیکن یہاں کی دیواروں سے صرف طویل ، گرجدار اور کھوکھلی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔
آرام کرتے ہوے مسز مور اس بازگشت پر غور کرنے لگیں۔وہ غور کرنے لگیں اس فاصلہ پر جس نے انھیں ڈاکٹر عزیز اور اڈیلا اور اسکے اپنے بچوں سے علٰحیدہ کردیا تھا۔ وہ دیکھ رہی تھیں کہ انکی ساری عیسائیت ، اچھے اور برے اخلاق کے بارے میں ان کے نظریات ، مختصراً ، ان کے سارے نظریات ِ زندگی یکجا ہوکر مارابار غاروں کی وہ کھوکھلی اور گرجدار بازگشت بن کر رہ گیے۔
اڈیلا ان میں سے ایک غار میں اکیلے ہی داخل ہو گئی۔اور جلد ہی خوفزدہ سی بھاگتی ہوئی باہر آگئی ؛ یہ کہتے ہوے کہ اندھیرے میں اس پر کسی نے حملہ کیا۔ ڈاکٹر عزیز کو گرفتار کرلیا گیا۔
مقامی باشندوں اور برطانوی حکمراں طبقہ میں ہمیشہ ہی واضح تقسیم موجود تھی ، لیکن جیسے جیسے ڈاکٹر عزیز کے مقدمہ کی سماعت کا وقت قریب آنے لگا تھا، دونوں گروہ ایک دوسرے سے وفاداری کے طلبگار تھے۔ جب مسز مور اپنے بیٹے سے کہنے لگیں کہ انھیں یقین ھیکہ ڈاکٹر عزیز اس مبینہ جرم کے مرتکب نہیں ہوسکتے ، تو اسنے مشورہ دیا کہ وہ واپس انگلینڈ چلی جائیں۔اور جب فیلڈنگ نے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا تو اسکا فوری طور پر معاشرتی مقاطعہ کردیا گیا۔
جس ذہنی تناؤ کے ساتھ مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی ، اس کا گہرا اثر ان تمام لوگوں پر پڑا جو اس سے جڑے تھے۔سب سے پہلا ہنگامہ خیز واقعہ اس وقت ہوا جب ڈاکٹر عزیز کا ایک دوست دوڑتا ہوا عدالت کے کمرے میں داخل ہو کر چیخنے لگا کہ رونی نے اس کی ماں کو غیرقانونی طور پر ملک سے باہر بھجوادیا تاکہ وہ ڈاکٹر کی بے گناہی کی گواہی نہ دے دے۔ جب بے چین ہندوستانی مشاہدین نے مسز مور کا نام سنا تو اسے دیوی سمجھ کر سب ہی منتروں میں اس کی تعریف کے گیت گانے لگے۔انگریزی بستیوں میں یہ خبر کافی دیر سے پہنچی کہ مسز مور سمندری جہاز پر ہی انتقال کر گئیں۔
دوسرے واقعہ نے تو مقدمہ کی سماعت کا اختتام ہی کردیا۔وہ اڈیلا کی گواہی تھی۔عدالت کے کمرے کا تناؤ بھرا ماحول ، مسز مور کے نام کا ورد ، اور غار سے واپسی کے بعد سے اس کے کانوں میں ایک قسم کی بھنبھناہٹ کی مسلسل موجودگی نے اڈیلا پر مدہوشی کی سی کیفیت طاری کر رکھی تھی۔وکیل استغاثہ کی تفتیش کے دوران اڈیلا کو غار میں پیش آے واقعات یاد آنے لگے تھے۔وہ ان لمحات کو یاد کرنے لگی جب وہ غار میں اکیلی گھوم رہی تھی، وہ لڑکھڑانے لگی ، اور اچانک اس نے اپنا ذہن بدلا اور تمام الزامات واپس لے لیے۔
مقدمہ کے اختتام پر کئی گھنٹوں تک چندرپور میں انتشار کا ماحول بنا رہا۔برطانوی ناراض جبکہ ہندوستانی خارج کردیے گیے۔ جہاں تک اڈیلا اور برطانوی ہندوستان کا تعلق تھا ، اس نے اپنے حدود کو عبور کیا تھا۔رونی ہیسلوپ نے بڑی احتیاط سے وضاحت دے دی کہ اس نے اڈیلا سے سارے تعلقات ختم کردیے ۔ کچھ ہفتے فیلڈنگ کے گھر رہ کر وہ اپنے گھر واپس چلی گئی۔ ڈاکٹر عزیز کی برطانوی قوم کے لیے بڑھتی نفرت کے باوجود فیلڈنگ نے اسے راضی کروالیا کہ وہ اڈیلا کو قانونی نقصانات کے لیے زر تلافی کے لیے مجبور نہ کرے۔
دو سال بعد ڈاکٹر عزیز ایک ضعیف ہندو راجہ کے قانونی طبیب مقرر کیے گیے ، جس کی کرشنا تہوار کی رات ہی موت واقع ہوگئی۔ جب فیلڈنگ وہاں سرکاری دورہ پر پہنچا تو دیکھا کہ تہوار ایک جشن پاگل پن تھا اور پورا شہر اس جادوئی اثر میں گھرا ہوا تھا ۔فیلڈنگ شادی کرچکا تھا اور ڈاکٹر عزیز کو غلط فہمی ہوئی کہ اس نے اڈیلا کویسٹیڈ سے شادی کی ۔ اور یہ سوچتے ہوے وہ اپنے پرانے دوست فیلڈنگ سے کترانے لگا تھا۔اور جب اتفاقاً اس سے ٹکرایا تو پتہ چلا کہ اس کی بیوی مسز مور کی بیٹی اسٹیلا (Stella) تھی۔ڈاکٹر اپنی غلطی پر بہت شرمندہ ہوا۔
آخری بار جدا ہونے سے پہلے ڈاکٹر عزیز اور فیلڈنگ گھوڑا سواری کرتے ہوے جنگلوں میں نکل گیے۔ دونوں کے درمیان پیدا ہوئی غلط فہمیاں بھی دور ہو گئیں۔ لیکن وہ سماجی سطح پر مل نہیں سکتے تھے کیونکہ فیلڈنگ کو ایک انگلش خاتون سے شادی کرنے پر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ ایک بڑی رقم چکانی پڑی تھی۔کچھ بڑے پتھر اچانک ان کے سامنے آگرے ، جس کی وجہ سے دونوں گھوڑوں کو اکیلے اکیلے پتھر کے دونوں طرف سے چلنا پڑا۔ یہ علامت تھی کہ وہاں سے ان کے راستے علٰحیدہ ہوچکے تھے۔دونوں دوستوں کے درمیان کتنی بھی محبت سہی ، لیکن ان کی نسلوں کے درمیان کا فاصلہ ختم کرنے کے لیے وہ محبت ناکافی تھی۔

تبصرہ نگار (انگریزی): سومناتھ سرکار
اردو ترجمہ (تبصرہ) : ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی (نیوزی لینڈ)

RELATED BOOKS