Qaid e Yaghastan | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

QAID E YAGHASTAN قید یاغستان

QAID E YAGHASTAN

PKR:   1,290/-

110 سال پرانے اس واقعے کی روداد کتابی شکل میں پہلی مرتبہ 1912 میں شائع ہوئی تھی۔ ہر 20، 25 برس بعد یہ کتاب شائع ہوتی رہی، بلاشبہ یہ ایک زندہ کتاب ہے۔
------
‘‘بعض شخصیات اور بعض کتابوں کے معاملات بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کیسا عجیب اور پراسرار معاملہ ہے کہ بعض کتابیں بھی انسانوں کی طرح بدقسمت ہوتی ہیں ۔ان کو نہایت محنت سے لکھا جاتا ہے، ہزار دقتوں سے طبع کروایا جاتا ہے، وہ دلچسپ بھی ہوتی ہیں اور سبق آموز بھی مگر کسی نامعلوم سبب کے تحت وہ قارئین تک نہیں پہنچ پاتیں۔ ایسے کئی نام میرے ذہن میں آرہے ہیں مگر بات طویل ہوجائے گی۔ یہ وہ ناقابل ِ فہم مظہر قدرت ہے جس کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ ازل سے ہوتا آیا ہے اور ابد تک ہوتا رہے گا۔یہ بھی ایک طے شدہ امر ہے کہ بعض کتابیں بھی ’قسمت کی دھنی‘ ہوتی ہیں۔ ان کو لکھنے والا سرسری سے انداز میں لکھ دیتا ہے،ایک نوع کی عجلت میں ۔ ۔ ۔ گویا خود بھی جان ہی چھڑانا چاہتا ہو۔ مگر ان کو توقع سے بڑھ کر شہرت ملتی ہے۔ ‘‘
---------
چند اقتباسات:
میں نے ایک بار بڑی جرات سے جب نیک نامے کے سراپا کی بات کی تو اس کے دو چار خط و خال بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ”بس اب اتنا ہی کافی ہے اور وہ بھی فقط تمھارے لیے۔“ میں نے 1971ء میں جب اپنی نظم کی کتاب ”محبت“ انھیں پیش کی تو اسے پڑھ کر فرمایا کہ اے کاش ”نیک نامے“ پر مزید دو چار اشعار موزوں کردیے جاتے۔ اس پر میں نے ان کا وہی جملہ کہ ”وہ بھی فقط تمھارے لیے“ دہرایا تو آپ چپ ہوگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ”نیک نامے“ شیخ مرحوم پر دل و جان سے فریفتہ ہوچکی تھی، اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کیوں نہ ہوتا۔ (خاکہ محمد اکرم صدیقی از حزیں کاشمیری)
٭
” عورتیں ہیں توہماری گرفتاری پرمبارک باد دے رہی ہیں اور قہقہے لگا رہی ہیں۔ مرد ہیں تو خون کی پیاسی نگاہوں سے ہماری طرف گھوررہے ہیں۔ وسیم گل کی تقریر میں اِس قدر لااُبالی پائی جاتی ہے ، گویا وہ اپنی کسی بھیڑ بکری کا ذکر کر رہا ہے۔ ہم دو غریب الوطن، بے یارو غم خوار اُن کے رحم اور قہر پر منحصر بیٹھے ہیں ۔ہماری آہےں اندر ہی اُٹھتی ہیں اور اندر ہی سرد ہو جاتی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے اپنا وطن یاد آیا ۔اپنے والدِ بزرگوار اور اپنی پیاری ماں کی صورت آنکھوں کے سامنے پھرنے لگی ۔ “
_________________
”ایک روز لالہ سندرلال سے میں نے ذکر کیا کہ دھوبی کے پاس میرے کپڑے تھے ، وہ بھی ضائع گئے، تو ایک نے بڑی حیرانی کے ساتھ دریافت کیا کہ بابو! تمھارے اِن کپڑوں کے علاوہ اور بھی پہننے کے کپڑے ہیں؟
تاریخوں اور دِنوں کا حساب اُنھیں بالکل معلوم نہ تھا۔ کئی اشخاص کو دِنوں کے نام تک نہ آتے تھے ۔جمعے کا دِن دریافت کرنے کی مجھے بڑی تکلیف ہوتی کیوں کہ میں خود شمار بھول جاتا اور اُن کو تو جمعے سے کچھ سروکار ہی نہ تھا ۔
٭
” اللہ اکبر میں اپنا چہرہ تو دیکھ ہی نہیں سکتا تھا کہ اس کا نقشہ کھینچوں۔لالہ صاحب کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔چہرہ اُترا ہوا تھا، سانس بدن میں نہیں سماتا تھا ،لب باوجود بار بار پانی پینے کے چمڑے کی طرح خشک ہو رہے تھے اور ٹھنڈے سانسوں کا تار بندھا ہوا تھا ۔آہ! میں بے چارے کوچ بان کو بھول گیا۔ خدا جانے اُس کے دِل پر کیا گزرتی ہوگی۔ وہ قوم کا خٹک پٹھان تھا ۔ اُس کی زبان سے کوئی لفظ اِضطراب کا نہیں نکلا ۔“
٭
” اِن خوف ناک پہاڑوں کے درمیان رات کے نو بجے عالم ِ سنسان میں، جب کہ دُنیا و مافی ہا آرام و اِستراحت کی تیاریوں میں مشغول ہے ،ہمارا نو آدمیوں کا گروہ ایک مسطح چٹان پر بیٹھا ہوا زمانے کے اِنقلاب کا ایک عبرت ناک منظر پیش کر رہا ہے ۔اُن کے دِلی جذبات کا اندازہ لگانا اگرچہ رجم بالغیب ہے، لیکن چنداں مشکل نہیں ۔

RELATED BOOKS