Tarveeni - Gulzar | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

TARVEENI - GULZAR تروینی - گلزار

TARVEENI - GULZAR

PKR:   800/- 480/-

Author: GULZAR
Tag: DR. SYED TAQI ABEDI
Pages: 232
Categories: POETRY GULZAR BOOKS ON SALE
Publisher: Book Corner
★★★★★
★★★★★

Reviews

Q

Qaisra Shafqat (Islamabad)

بہت خوب صورت “ تروینی “ لفظ پڑھ کر میں حیراں ہوئی بھلا اب یہ کیا ہے؟پر جب پتہ چلا کہ تروینی نام یوں دیا کہ سنگم پر تین ندیاں ملتی ہیں-گنگا ، جمنااور سرسوتی۰۰۰۰
کیا پتہ کب کہاں سے مارے گی
بس میں زندگی سے ڈرتا ہوں
موت کا کیا ہے ایک بار مارے گی
کتنا آفاقی خیال کتنی بڑی سوچ تین مختصر سطروں میں سمو دی-
“ تروینی “ تو کمال چیز ہے
لاجواب سا کر کرتی ہے
اتنا کُچھ چند جُملوں میں کہ دیتی ہے


B

Basit Khattak (Karak)

گلزار کی جنم بھومی جہلم کے ناتے ان کا حق ادا کرنے والوں میں سے بک کارنر جہلم شاید سب سے آگے ہے۔ گلزار پر کئ ایک انتہائی خوبصورت کتابیں چھاپیں جن میں سے 'تروینی' تازہ ترین ہے۔
تروینی تین مصرعوں کی نظم ہوتی ہے جس کے پہلے تجربے کا سہرا چار دہائی قبل گلزار کے سر سجتا ہے۔ خود گلزار اپنے شعری مجموعے رات پشمینے کی میں اس حوالے سے لکھتے ہیں:
"تروینی نہ تو مثلث ہے نہ ہائیکو نہ تین مصرعوں میں کہی ایک نظم، ان تینوں فارمز میں ایک خیال ایک امیج کا تسلسل ملتا ہے لیکن تروینی کا فرق اس کے مزاج کا فرق ہے۔ تیسرا مصرع پہلے دو مصرعوں کے مفہوم کو کبھی نکھار دیتا ہے کبھی اضافہ کرتا ہے یا ان پر کمنٹ کرتا ہے۔ تروینی نام اس لیے دیا تھا کہ سنگم پر پر تین ندیاں ملتی ہیں۔ گنگا جمنا اور سرسوتی۔ گنگا اور جمنا کے دھارے سطح پر نظر آتے ہیں لیکن سرسوتی جو ٹیکسلا کے راستے سے بہہ کر آتی ہے وہ زمین دوز ہو چکی ہے۔ تروینی کے تیسرے مصرعے کا کام سرسوتی دکھانا ہے جو پہلے دو مصرعوں سے چھپی ہوئی ہے"
ڈاکٹر سید تقی عابدی نے شروع میں تین مضامین شامل کیے ہیں۔
گلزار اکیسویں صدی کے شاعر کیوں؟
تروینی: اردو شاعری کا نیا صنفی تجربہ
منتخب تروینیوں کا اجمالی جائزہ
کتاب انتہائی شاندار اور کاغذ و طباعت کے لحاظ سے گلزار کی شاعری کے شایان شان ہے جس پر بک کارنر بجا طور پر داد کے مستحق ہیں۔
تروینیوں سے انتخاب:
کیا پتا، کب کہاں سے مارے گی
بس کہ میں زندگی سے ڈرتا ہوں
موت کا کیا ہے ایک بار مارے گی
۔
سب پہ آتی ہے سب کی باری سے
موت منصف ہے کم و بیش نہیں
زندگی، سب پہ کیوں نہیں آتی
۔
کبھی کبھی بازار میں یوں بھی ہو جاتا ہے
قیمت ٹھیک تھی، جیب میں اتنے دام نہیں تھے
ایسے ہی ایک بار میں تم کو ہار آیا تھا
۔
میں بس میں بیٹھا ہوا ڈھونڈنے لگا مڑ کے
نہ جانے کیوں یہ لگا، تم وہیں کہیں پر ہو
تمہارا سینٹ، کسی اور نے تھا پہنا ہوا
۔
ایک تمبو لگا ہے سرکس کا
بازی گر جھولتے ہی رہتے ہیں
ذہن خالی کبھی نہیں ہوتا


RELATED BOOKS