Wuthering Heights (Urdu) | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

WUTHERING HEIGHTS (URDU) ودرنگ ہائیٹس

Inside the book
WUTHERING HEIGHTS (URDU)

PKR:   1,250/- 750/-

Author: EMILY BRONTE
Translator: SAIFUDDIN HASSAM
Pages: 367
ISBN: 978-969-662-356-4
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS
Publisher: Book Corner
★★★★★
★★★★★

’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ عشق بلاخیز کی داستان ہے۔ پاگل کردینے والا عشق، جو مثبت اقدار کو دبا کر منفی اقدار کو نمایاں کرتا ہے، جو ایسا وحشی جذبہ بن کر سامنے آتا ہے کہ انسانوں کو ان کی سطح سے گرا کر وحشیوں اور جانوروں کی صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا ناول ہے جس کا سکہ ایک صدی سے زائد عرصے سے رائج ہے اور وقت کے گزرنے اور زمانے کی تبدیلیوں نے اس سکّے کو دھند لایا ہے نہ اسے بے وقعت بنایا ہے بلکہ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اس سکّے کی قیمت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ ’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ کی عالمگیر کشش کو ہر قاری نے محسوس کیا ہے۔ اس پر مبنی کئی بار ٹی وی ڈرامے لکھے اور پیش کیے جاچکے ہیں۔ ریڈیو کے لیے اسے بار بار دُنیا بھر میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس پر مبنی کئی بار فلمیں بن چکی ہیں، جن میں وہ فلم خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جس میں سرلارنس اولیور نے ہید کلف کا کردار ادا کیا تھا۔ شیکسپیئر کے بعض لازوال کرداروں کی طرح ہید کلف بھی ایک ایسا کردار ہے جسے دُنیا کے بڑے فنکار اپنے لیے ایک چیلنج سمجھتے ہوئے اسے ادا کرنے کی خواہش دل میں رکھتے ہیں۔ ’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ دُنیائے ادب کا عظیم تخلیقی کارنامہ ہے۔ یہ اس لیے بھی بڑا فن پارہ ہے کہ اس کی خالق نے بھی کرب ناک زندگی بسر کی تھی اور وہ سارا کرب اس ناول میں منتقل ہو جاتاہے۔ اس عشق میں وہ منفی قوتیں شامل ہوجاتی ہیں جنھوں نے ہید کلف کو وحشی بنا دیا۔ ایملی برانٹے کو زندگی نے اتنی مہلت ہی نہ دی کہ وہ کوئی دوسرا ناول لکھ سکے۔ اس کا پہلا اور آخری ناول ’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ ہے اوراس ناول نے ہی اسے زندہ ٔجاوید کر دیا۔ ’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ مقامی لوگوں کی زبان میں اس جگہ کو کہتے تھے جہاں آندھیاں چلتی ہوں، ہوائیں چیختی ہوں، طوفان آتے ہوں۔ ’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ ناول بھی عشق کے طوفان اور عشق کی آندھی کا قصہ ہے۔

ستار طاہر

---

ناول نگار:
ایملی جین برانٹے(30 جولائی 1818ء - 19 دسمبر1848ء) انگریزی کی مشہور ناول نگار اور شاعرہ، اپنے واحد ناول ’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ کے لیے پوری دُنیا
میں پہچانی گئی۔ ابتدا میں ایلس بیل (Ellis Bell) کے قلمی نام سے لکھا۔ بعداز مرگ بڑی بہن شارلٹ برانٹے کے انکشاف سے کتابیں ایملی برانٹے کے اصل نام سے شائع ہوئیں۔ پیدائش بریڈفورڈ کے نواحی گاؤں تھونٹن میں ہوئی جہاں باپ مقامی گرجے کا پادری تھا۔ ایملی کا بچپن مشکل حالات میں گزرا۔ نوعمری میں ہی اپنی ماں اور دو بڑی بہنوں کی موت کا صدمہ سہنا پڑا۔ وبا پھیلی تو مختصر سی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ بیس سال کی عمر سےسکول میں بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ چار سال بعد فرنچ اور جرمن زبان سیکھنے کے لیے شارلٹ کے ہمراہ برسلز کا سفر کیا۔ مگر خالہ کی ناگہانی موت کے باعث وطن واپس لوٹنا پڑا۔ ایملی اور اس کی چھوٹی بہن این چھپ کر لکھا کرتی تھیں۔ ایک روز دونوں کی قلمی بیاضیں شارلٹ کے ہاتھ لگ گئیں۔ 1846ء میں پہلی بار تینوں برانٹے سسٹرز کی شاعری یکجا صورت میں ’’Poems by Currer, Ellis and Acton Bell ‘‘ کے ٹائٹل سے ان کے قلمی ناموں سے منظرِ عام پر آئی۔ اشاعت کے کئی ماہ تک اس کتاب کی صرف دو کاپیاں فروخت ہوسکیں، مگر ان بہنوں نے ہمت نہ ہاری اور ناول لکھنے کی طرف متوجہ ہوئیں۔ یوں شارلٹ نے ’’جین آئر‘‘، این نے ’’ایگنس گرے‘‘ اور ایملی نے ’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ جیسے لازوال ناول تخلیق کیے۔ ایملی نے اپنی مختصر سی زندگی میں بہت دُکھ سہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نے جو کرب ناک زندگی بسر کی اس کا سارا کرب اپنے اس اکلوتے شاہکار ناول ’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ میں بھر دیا۔ ایملی کی زندگی ہمیشہ ایک معمہ رہی ہے کیونکہ اس کی زندگی کے حالات، ماسوائے اس کی بہن شارلٹ اور برسلز کے استاد کی زبانی، کہیں اور سے نہیں ملتے۔ پُراسرار اور شرمیلی ایملی اپنے باپ کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد ٹی بی کا شکار ہوگئی اور ’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ جیسا شاہکار چھوڑ کر تیس سال کی عمر میں اپنے ماں، باپ اور بہنوں کے پاس چلی گئی۔

---

مترجم:
سیف الدین حسّام اُردو کے ممتاز ادیب، مترجم اور دست شناس ۔ گھرانے کا تعلق لدھیانہ، مشرقی پنجاب سے جو تقسیم کے بعد جہلم آباد ہو گیا۔ 1949ء میں گورڈن کالج راولپنڈی سے ایف ایس سی کیا۔ مالی حالات کی بنا پر مزید تعلیم حاصل نہ کر سکے اور جہلم واپس لوٹ آئے۔ یہاں کچھ عرصہ والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹایا۔ چار سال تک کھیوڑہ نمک کی کان میں کام کرتے رہے، شاید اسی لیے ان کا لکھا شیریں کم اور نمکین زیادہ ہے۔ مالی آسودگی نصیب ہوئی تو پڑھائی کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ 1958ء میں دریائے جہلم کے پانیوں میں پاؤں لٹکا کر بی اے آنرز کی تیاری کی اور یونیورسٹی بھر میں اوّل رہے۔ ایم اے اُردو اور ایم اے انگریزی کے بعد روزگار کی خاطر بغیر کسی استاد کے شارٹ ہینڈ رائٹنگ سیکھی اور پھر سٹینوگرافی میں درجۂ کمال کو پہنچے۔ اسی دوران پامسٹری سے دلچسپی پیدا ہوئی جو رفتہ رفتہ جنون کی حد تک بڑھ گئی۔ پانچ برس تک قومی ڈائجسٹ لاہور میں دست شناسی کے حوالے سے مضامین لکھتے رہے جو قارئین میں بے حد مقبول ہوئے۔ بعد ازاں یہ مضامین ’’ہتھیلی کی زبان‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ جہلم سے ’’غبار‘‘ کے نام سے ایک مختصر ادبی رسالے کا اجرا بھی کیا جو اپنے اختصار کے باوجود سیاسی، صحافتی اور ادبی اہمیت کا حامل تھا۔ ’’غبار‘‘ کے اداریے میں عموماً سیاسی یا اخلاقی مسائل کو موضوعِ تحریر بنایا کرتے۔ اُردو تراجم کے حوالے سے بھی قابلِ قدر کام کیا اور انگریزی ناولز ’’جین آئر‘‘ اور ’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ کےمعیاری ترجمے کیے۔ ’’جین آئر‘‘ کے ترجمے میں عرق ریزی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس ترجمے کے دوران انھیں نظر کی عینک لگوانا پڑ گئی۔ بہت سی کتابیں بچوں کے لیے بھی لکھیں جو چھپ کر داد پاتی رہیں۔ 4 مارچ 1995ء کو دُنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔

Reviews

Z

Zubaida

کتابوں سے دلیلیں دوں یا خود کو سامنے رکھ دوں
وہ مجھ سے پوچھ بیٹھے ہیں محبت کس کو کہتے ہیں
خزانے میں نیا اضافہ۔۔۔۔ابھی اکڑ بکڑ کر کے دیکھا ودرنگ ہائٹس کا نام نکلا پڑھنے کے لیے۔۔۔۔


N

Naeem ur Rehman (Karachi)

بک کارنرجہلم نےکتابوں کی پرنٹنگ, پریزنٹیشن, جلدبندی اورمارکٹنگ کا ایسامعیارقائم کیا ہے. جس کی تقلید ممکن نہیں حال ہی میں ’’داڑھی والا‘‘اور ’’چاندکوگل کروتوہم جانیں‘‘ کتب کی ابتدائی دوسوکاپیاں آرڈر پرمصنف کےدستخط اورخاص نمبر کےساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کرنےکی آفرکی گئی۔ یہ آن لائن خریداری، ہوم ڈیلیوری اورڈسکاؤنٹ کےبعدمارکٹنگ کامنفرداورشانداراندازہے۔ کتابوں کی پیکنگ اتنی عمدہ کی جاتی ہےکہ کسی کتاب پرنشان بھی نہیں پڑتا،یہ مجھ جیسےبک لورکےلیےبہت اہم ہے۔کچھ عرصے سےٹائٹل ایسےدانےدارکاغذپرچھاپےجارہےہیں۔ جس پرتصویرابھر جاتی ہے۔ جیسے تفہیم غالب پرغالب کی تصویربہت اچھی آئی ہے۔کتاب کی ہرکاپی بہترین جلدبندی سے آراستہ ہوتی ہے۔اور ڈیلیوری اتنی تیزکہ مجھےجمعرات کوبھیجنےکی اطلاع دی۔ کراچی میں جمعہ کوموصول ہوگئیں۔ کمپوزنگ اتنی اعلیٰ کہ باربارصفحات دیکھ کردل نہیں بھرتا۔ اسباب بغاوت ہندکاسستاایڈیشن منگوایا تھا۔اس میں بھی سرسیدکی رنگین تصویرآرٹ پیپر پرکئی اورتصاویرچارسونوےصفحات کی کتاب کی قیمت آٹھ سوناقابلِ یقین ہے۔اسے دیکھ کرحیرت ہے کہ اعلیٰ ایڈیشن کیساہوگا۔بیماری کےبعدمالی وسائل اجازت نہیں دیتےورنہ اعلیٰ ایڈیشن ہی منگواتا۔ غالب کےڈیڑھ سواشعارکی شرح شمس الرحمٰن فاروقی کےقلم سے’’تفہیمِ غالب‘‘ سرورق کےاندرکی تصاویر بہترین اورنظرنوازکمپوزنگ چارسو سولہ صفحات قیمت نوسوننانوے، فاروقی صاحب کاتفصیلی تعارف قارئین کے لیے،بونس ہے۔ انتون چیخوف دنیاکےمستندکہانی کاران کاتعارف شکیل عادل زادہ کے جادونگارقلم سے اورپڑھنےوالےکوکیاچاہیے۔ ہماری نسل کے قاری کے لیے غیرمعروف مترجم سیدمحمد مہدی کاعمدہ تعارف، آرٹ پیپرپرچیخوف کی پکچرز،مشاہیرکی آرا ساڑھےچارسو صفحات اورصرف آٹھ سو قیمت۔آخرمیں ایملی برانٹےکاشاہکار ’’ودرنگ ہائٹس‘‘ کاترجمہ سیف الدین حسام نےانتہائی خوبصورت کیاہے۔ آرٹ پیپرپرسولہ رنگین تصاویرنےچار نہیں سولہ چاندلگادیےہیں۔ میرےپاس سترکےعشرے کی جریدی روشن اورشاہکار پرودرنگ ہائس اورجین آئرہیں۔انہیں ناقص پرنٹنگ میں کبھی کتابی شکل میں لینے کودل نہیں کیا۔لیکن بک کارنرکی شانداراشاعت دیکھ کردل خوش ہوگیا۔ ’’جین آئر‘‘کاانتظارہے۔ بک کارنرکےدلکش انداز میں ان کتب کوپڑھنےمیں لطف آئےگا۔دل کی بیماری اوربائی پاس کے بعدمالی وسائل میں کمی کے باوجود بک کارنرکی کتب حاصل کرکے دل خوش ہوجاتا ہے۔ اورانہیں پڑھنے میں بھی بے پناہ لطف ملتاہے۔ ایک بیمارانسان کواس سےبہترعلاج نہیں مل سکتا۔ شکریہ گگن شاہد امرشاہد آپ اپنےعظیم والدکامشن شاندار انداز میں جاری رکھےہوئےہیں۔ تقریباً ہرہفتے آپ نئی کتب کااعلان کرتے ہیں۔ جواگرپاس ہوں بھی توہم جیسے قاری دوبارہ لینے پرمجبورہوجاتے ہیں۔ حمیدشاہدکی ترجمہ کردہ جرم وسزا، اثبات کے شاعری نمبراور سب سے بڑھ کرشاہدحمیدصاحب کی کتاب کابے چینی سے انتظارہے۔ اورسب رنگ کہانیاں توجاری رہیں گی ہی


M

Miyan Shahid Imran (Sargodha)

مدت ہوئی۔۔۔ احباب کنجوس ہوئے۔ اور مجھے کتابوں کے تحائف ملنا بند ہوئے۔ اب تو "نویں نکور" کتب کی سحر انگیز خوشبو کو بھی ترس گیا تھا۔ تو سوچا اس درد کی دوا اب خود ہی کروں۔
تو پھر کیا تھا۔ بک کارنر جہلم کے کرتا دھرتاؤں کا بھلا ہو کہ میرے فون پر مجھے فوراً کتب ارسال کر دیتے ہیں۔ یہ ان کی محبت ہے۔
تو لیجیے ہمارا آرڈر آج ہمیں موصول ہوا اور ہم شاداں تو فرحاں ان محبوباؤں کو بیڈ کی زینت بنا کر پھولے نہیں سما رہے۔
اس کے بعد بک کارنر کی انتظامیہ کی توصیف نہ کرنا بھی کنجوسی ہو گی۔۔ کتاب کی تزئین و آرائش تو ان پر ختم ہے ہی۔۔ مگر قاری اور کتاب کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے تیز ترین اور محفوظ ترین ترسیل بھی ضروری ہے۔ تو اس کام میں یہ ادارہ اپنی مثال آپ ہے۔۔۔ میں گگن شاہد صاحب کا دل سے شکر گزار ہوں۔


RELATED BOOKS